غزوہ بدر کے چند ایمان افروذ واقعات

Ghazva badar

 

غزوہ بدر کے چند ایمان افروذ واقعات

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

یہ نبوت کا پندرھواں سال تھا جب تاریخ اسلام کا فیصلہ کن مرحلہ حق و باطل کی کھلی جنگ غزوہ بدر کے نام سے لڑی گئی ۔ یوم بدرحق و باطل کے درمیان فیصلے کا دن تھا جس دن حق کو واضح اور دوٹوک فتح ملی ۔ کفر کے مقدر میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ذلت آمیز شکست لکھ دی گئی ۔ اس روز حق کا پرچم بلند ہوا اور بلند ہوتا ہی چلا گیا ۔عقیدہ توحید کا پرچار شروع ہوا۔ جنگ بدر کے بہت سے پہلو ہیں جن کی الگ الگ اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے جبکہ انسانی تا ریخ گواہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں ایسے ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں عقل جن کی توجیہ کرنے سے قاصر رہی۔  سوچ جن کے بارے میں سوچ سوچ کر ماؤف ہو جاتی ہے اور سائنس انہیں اتفاقات کا نام دیکر اپنا دامن بچا جاتی ہے لیکن روحانی دنیا میں یہ بظاہر خلاف عقل واقعات کسی استعجاب اور حیرت کا باعث نہیں بنتے کیونکہ یہی احساس اللہ کی راہ میں اللہ کے دین کی خاطر کود کو پیش کر دیتے ہیں اللہ انہیں ایمان کی دولت سے نوازتا ہے اور یہی ایمان کی معراج ہے۔

غزوہ بدر میں اللہ کی مدد اور نصرت کو آسمانوں سے اترے ہوۓ اہل ایمان نے ہی نہیں بلکہ مشرکین مکہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے دشمن بھی اس کی  تائید سے نہ رہ سکے۔

پرسکون نیند

انسان کا ذہن اگر منتشر ہو یا اس پر حالات کا دباؤ ہوتو وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی نیند ختم ہو جاتی ہے میدان جنگ میں جہاں جان کے لالے پڑے ہوں موت سامنے رقص کر رہی ہو تو خوف کی لہر خون میں سرایت کر جاتی ہے اور بہادر سے بہادر انسان کا لہو بھی پانی ہونے لگتا ہے اور اس کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ میدان بدر میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار اعظم ﷺ جاگ رہے ہیں اور اپنے مالک کے حضور گڑ گڑا کر التجائیں کر رہے ہیں فتح و کامرانی کی دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن وہ اسلامی لشکر جس نے صبح باطل کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کرنا ہے جس نے مشرکین مکہ کے گھنڈ کو خاک میں ملانا ہے اور جس نے باب تربیت کا نیا عنوان رقم کرتا ہے وہ نیند کے گہرے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے یہ نہیں کہ انہیں حالات کی نزاکت کا انداز نہیں وہ تو مدینے کے دفاع میں پوری پوری رات پہرہ دیتے رہے ہیں یہ بھی نہیں کہ ان کے پاس اتنی افرادی قوت ہے یا وسائل جنگ کی اتنی فراوانی ہے کہ وہ دشمن کو خاطر میں ہی نہیں لاتے البتہ اتنا ضرور ہے کہ انہیں ایمان کی دولت نصیب۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جسے چاہتا ہے زندگی عطا کرتا ہے عزت ذلت سب اس کے ہاتھ میں ہے یہ طمانیت یہ سکون ایمان کی طاقت ہے لیکن دوسری طرف دشمن مضطرب و بے چینی کی کیفیت سے دو چار ہے جب حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عمار بن یاسر دشمن کی نقل وحرکت کی خبر میں لے کر واپس آتے ہیں تو بیان کرتے ہیں کہ کنارتو ڈر کے مارے کسی گھوڑے کو بھی ہنہنانے نہیں دیتے ، اس کیفیت کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے۔

جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں ) راحت و سکون (فراہم کرنے کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پرآسمان سے پانی اتارا تا کہ اس کے ذریعے تمہیں ( ظاہری و باطنی طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان ( کے باطل وسوسوں ) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو ( قوت یقین سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم ( خوب ) جما دے۔ (الانفال ۱۸ )

 نتیجہ اس خدائی مدد کا یہ نکلا کہ مسلمان جب صبح نماز کے لئے اٹھے تو چاک و چوبند اور پوری طرح بیدار تھے لیکن ساری رات سونے جاگنے کی کیفیت میں رہنے والا لشکر کفار صبح ہوئی تو شام کی طرح ڈوبتے سورج کا منظر پیش کر رہا تھا۔

شیطانی وساوس کا علاج: میدان بدر میں شیطان لشکر کنار کا نمائندہ بن کر پوری طرح متحرک تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر اگر مشرکین مکہ شکست کھا گئے تو پھر اسلام کی آفاقی تعلیمات کے فروغ کو دنیا کی کوئی طاقت نہ روک سکے گی اور پوری دنیا پر تو حید کا پرچم لہرانے لگے

اهل مکه بر مسلمانوں کی فتح کے اثرات

غزوہ بدر میں مسلمانوں کی شاندار فتح کے اثرات فوری طور پر اہل مکہ پر مرتب ہوئے اس عبرتناک شکست نے مشرکین مکہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف جنگی جنون کو انتہا تک لے جانے والے کسی کومنہ دکھانے کے قابل نہ رہے ۔ قریش کی عسکری اور سیاسی شہرت کا خاتمہ ہو گیا ۔ مکہ میں حضورﷺ کو شہید کرنے کی سازش کر نے والے چودہ میں سے گیارہ سردار مارے گئے باقی تین سرداروں نے اسلام قبول کر لیا۔

دنیائے یہود میں رد عمل

مینہ اور مدینہ کے مضافات میں آباد یہود قبائل نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کی عظیم فتح کی خبر پر حیرت، خوف اور نفرت کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ مدینہ کی نوزائید مملکت کو سیاسی ، معاشی حوالے سے استحکام نصیب ہو ۔ انہوں نے قدرتی طور پر غزوہ بدر کے انجام پر منفی ردعمل ظاہر کیا ۔ تا ہم جن کے دلوں میں حرف حق کی تلاش کی ذر اسی بھی جستجو تھی اور اپنی کتب میں نبی آخر الزماںﷺ کے ظہور کے بارے میں درج تمام نشانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے انہوں نے بخوشی اسلام قبول کر لیا ان میں چند ایک نے تو دل کی گہرائیوں سے اسلام کو اپنی روح کا حصہ بنایا اور چند ایک نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑیں کاٹنے کا گھناؤنا کاروبار شروع کر دیا۔

میثاق مدینہ کے مطابق یہود اس بات کے پابند تھے کہ وادی نور پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر شہر رسول کا دفاع کریں گے لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کر دی۔ کعب بن اشرف تو کھلی دشمنی پر اتر آیا ۔ کفار کی شکست پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہودی در پردہ ہی نہیں اعلامیہ طور پر مشرکین مکہ کو پیش کش کر نے لگے کہ وہ آئیں اور اپنی شکست کا بدلہ لیں ۔ ہم ہر طرح سے معاونت کریں گے ۔ روز بروز ان کی سرکشی میں اضافہ ہونے لگا ۔ ان کا یہ باغیانہ رویہ مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف تھا۔

مسلمانوں کی فتح کا دیگر قبائل پر اثر

عرب کے دیگر قبائل نے بھی مسلمانوں کی فتح کی خبر کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا وہ بھی ان گنت تحفظات کا شکار ہو گئے ۔ بعض قبائل کی گزراوقات ہی لوٹ مار پر ہوتی تھی ۔ تجارتی قا فلے بھی ان کی دست درازی سے محفوظ نہ تھے انہیں اب خد شہ لاحق تھا کہ اگر مسلمانوں کی حکومت کو استحکام ملا اور یہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوئی تو یہ سب سے پہلے اللہ کی حاکمیت اور اس کے قانون کی عمل داری کے لئے اقدامات کریں گے۔ انہیں یہ بھی ڈرتھا کہ اسلامی حکومت تربیتی بنیا دوں پر امن و امان قائم کر کے لاقانونیت اور دہشت گردی کا خاتمہ کرے گی۔ یہ لوگ بنیادی طور پر تا جر پیشہ تھے دیگر قبائل کے مفادات ان سے وابستہ تھے اس لئے قریش کی عسکری ، سیاسی اور نفسیاتی شکست ان کے لئے بھی ڈراؤنہ خواب بن گئی۔

غزوہ بدر میں ذلت آمیز شکست سے قریش کی سیاسی، مذہبی اور معاشی قیادت پر بہت کاری ضرب پڑی اور معاشرے پر قریش کی گرفت اتنی مضبوط نہ رہی جتنی پہلے تھی ۔ ان کی مذہبی حیثیت بھی متاثر ہوئی لیکن قبائل مذہبی حیثیت کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے ان کا سار زور مفادات پر تھا۔ اس لئے ان کی وفاداریاں بھی اپنے مفادات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی تھیں۔