فتح مکہ
Fatah Makkah
آپﷺنے حربی میدان میں ہمیشہ بہترین حکمت عملی اپنائی یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ نے ھمیشہ فتحیاب فرمایا۔ آپﷺکی بہترین حربی حکمت عملی اور تدابیرکا ہی نتیجہ تھا کہ مکہ بغیر کسی خون ریزی کے فتح کر لیا گیا۔
یہ تاريخِ اسلامی کا پہلا واقعہ ہے جس میں مکہ کے اندر دس ہزار مجاہد حضرت محمدﷺ کی قيادت ميں بھرپورعسکری تياری کے ساتھ داخل ہوتے ہيں اور بغیر کسی بڑے نقصان کے فتح حاصل کرلیتے ہیں
فتح مکہ کا پس منظر
حدیبیہ کے مقام پر قریش مکہ اور مسلمانوں کے درمیان دس سال کے لئے صلح کا معاہدہ طے پایا۔اس کی دیگر شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی تھی کہ عرب کے دیگر قبائل کو اجازت دی ہو گی کہ وہ جس فریق کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ بنوبکرنےقريش کےساتھ اوربنوخزاعہ نےنبی اکرمﷺ کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرليا۔
بنوبكراوربنوخزاعه کے درمیان پرانی دشمنی چلی آ رہی تھی۔ بنوبکر نے بنوخزاعه پررات کے وقت حملہ کر دیا اسطرح 22 ماہ کے بعد قریش نے معاہدے کی خلاف ورزی کر دی جس کے بعد بنی خزاعہ کے لوگ آپﷺکے پاس مدینہ میں فریاد لے کر پہنچے اور آپﷺ سے مدد کی درخواست کی اور آپ ﷺ نے ان سے مدد کا وعدہ کر لیا جس کے بعد آپﷺ نے اپنے قاصد کو قریش مکہ کی طرف تین شرطوں کیساتھ بھیجا جن میں ایک شرط معاہدہ ختم کی تھی جسے قریش مکہ نے قبول کر لیا۔
آپﷺ دس رمضان المبارک آٹھ ہجری اپنے دس ہزارسپاہیوں کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن اس سے پہلے کہ جنگ کا آغاز ہوتا آپ ﷺ نے مکہ والوں کیلئے جنگ سے پہلے امان کا راستہ دے دیا۔
آپ ﷺ نے اپنے سالاروں کو مکہ میں ہتھیار استعمال کرنے سے منع فرمایا اورسوائے چند لوگوں کے کسی شخص کو بھی قتل نہ کرنے کا حکم دیا حضرت خالد بن ولید کے لشکر کے سوا باقی تمام لشکر بغیر کسی مزاحمت کے شہر مکہ میں داخل ہوئے اوررمضان آٹھ ہجری کورسول اکرمﷺ نے مکہ فتح کر لیا۔ آپﷺ سوره فتح کی تلاوت کرتے ہوئے مسجد حرام کے اندر داخل ہوئے اور حجرہ اسود کو بوسہ دیا ساتھ بیت اللہ کا طواف بھی فرمایا۔
اسی موقع پر آپﷺ اہل مکہ سے مخاطب ہوئے کہ ہر شخص کو امان ہے اور ہر اس شخص کو بھی امان ھے جو ابو سفیان اور مکہ میں پناہ لے گا لیکن ایسے شخص کو کبھی معافی نہیں ملے گی چاھے وہ خانہ کعبہ کے غلاف میں ہی کیوں نہ لپٹ جائے جس نے کبھی بھی میری موجودگی میں نبوت کا اعلان کیا یا گستاخی کی ہو۔
مکہ کی عظیم ایشان کامیابی نے نہ صرف اہل مکہ بلکہ مکہ کے آس پاس رھنے والے باقی قبائل کو بھی اسلام کے قریب کر دیا جس کے بعد عرب کے دینی اور سیاسی میدان میں مسلمانوں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور یوں نہ صرف اھل عرب کی مقبولیت اسلام بنی بلکہ اھل قریش سے بھی آزادی مل گئی اور یوں عرب ایک بہت بڑی اسلامی قوت بن کر ابھرا جس کی قیادت آپ ﷺ کے مضبوط ھاتھوں میں تھی۔

