آپﷺ کی تعلیمی قابلیت و صلاحیت

Academic ability of Prophet Mohammad PBUH

 

حکیم سعید کے قلم سے

سرکار عالم فخر موجودات ، سرور کونین ختم الرسل حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت طیبہ اور حیات پاک ہر مسلمان کیلئے اسوہ حسنہ اور عملی نمونہ ہے ۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کرنے کیلئے ہمیں ہر قدم پر ہر شعبہ زندگی میں سرکارﷺ سے رہنمائی کی ضرورت ہے ۔ حضورﷺ دنیا میں آخری پیغمبر کی حیثیت سے تمام علمی وعملی کمالات کے جامع اور انسان کامل کا ایک نمونہ بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپﷺ نے امت کو عقائد وعبادات ہی ہدایت نہیں فرماۓ بلکہ زندگی کے ہر میدان میں وہ حکمت آفرین ہدایات دی ہیں کہ ان پرعمل کر کے دین و دنیا کی نعمتیں حاصل کی جاسکتی ہیں اور اس کے بعد ہمیں رہنمائی کیلئے کسی کی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اگر دنیا اس حکیمانہ نمونہ فکر وعمل کو اپنا لے تو جس اضطراب اور انتشار میں دنیا آج پھنسی ہوئی ہے اس میں مبتلا نہ ہو ۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ آپﷺ جس طرح ایک مشفق باپ اور ایک محبت کرنے والے شوہرہیں اسی طرح امت کے حاکم اور سربراہ بھی ہیں ۔ جس طرح آپﷺ نے مخلوق کو خالق کا بندہ بنانے میں ایک منفرد مثال قائم فرمائی ہے اس طرح خدا کے بندوں کو باہم جوڑنے اور ان کے آپس کے معاملات منصفانہ بنیاد پر استوار کرنے اور ایک پاکیزہ معاشرہ قائم کر کے مستحکم نظام دنیا کو بخشنے میں جو کردار ادا کیا ہے تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی

ایک امیر یا سربراہ ملت کی حیثیت سے بھی حضورﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے روشنی کا ایک مینار ہے بلکہ ساری انسانیت کیلئے ایک آئیڈیل ہے ۔ حضورﷺ نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ حدود کے معاملے میں بڑے اور چھونے کا امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ ان میں سے جب کوئی عزت والا چوری کرتا تھا تو اسے سزا نہیں دیتے تھے قسم ہے اللہ تعالی کی اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں ۔ غور فرمائیں کہ حضورﷺ نے کس خوبی سے بیان فرمایا کہ جرم  ہر حال میں قابل سزا ہیں اور اس معاملے میں کسی امتیاز اور کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہے۔ جرم کرنے والا کوئی ہو کسی طبقے کا فرد ہو کسی خاندان کا رکن ہو کیسا ہی با اثر ہو کیسا ہی دولت مند ہواگر قانون کی خلاف ورزی کرے تو قانون و انصاف کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔

اس طرح حضورﷺ نے معاشرے میں انصاف، عدل اور مساوات کی وہ بنیاد عطا کر دی کہ جو ایک مستحکم اور پر امن معاشرے کی ضامن ہے ۔ تاریخ شاہد ہے اور حال بھی ایسی ہی مثالوں سے خالی نہیں کہ بادشاہ اور مطلق العنان آمر اپنی حکومت و جبروت کا سکہ جمانے اور اپنی ہیبت دلوں میں بٹھانے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں کہ ان کے سامنے آ کر اچھے اچھے سرغنے کانپنے لگتے ہیں۔ اپنا رعب جمانے کیلئے یہ بادشاہ اور حکمران اپنے ارد گرد وہ اسباب اور ماحول پیدا کرتے ہیں کہ جن سے دیکھنے والا ارزہ براندام ہوجاۓ لیکن ہمارے سر کارﷺ ان تمام ظاہری لوازمات اور اسباب سے بے نیاز تھے ۔ سارے عرب کی حکومت آپﷺ کے قدموں میں تھی۔

عظیم المرتبت حکمران اور بادشاہ آپ کی ملت کے زیرنگین تھے لیکن سرکارﷺ کی بے سرو سامانی ہی آپ کی عظمت و جلال کا مظہر تھی۔

ایک آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور آپﷺ کے رعب سے لرزہ براندام ہو جا تا ہے آپﷺ کا اس کیفیت سے خوش ہونا تو کجا الٹا اسے دلاسے دیتے ہیں اور اس کے دل سے ہیبت دور کرنے کیلئے جو کچھ فرماتے ہیں وہ انسانی عظمت کا عدیم النظیر چارٹر ہے اور مساوات کے بڑے بڑے دعویداروں کیلئے سبق آموز بھی۔ آپﷺ فرماتے ہیں: ڈرو نہیں ! میں قریش کی ایک غریب عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی ۔ آپنے ان چند لفظوں میں وہ معیار بیان کر دیا جو تاریخ انسانی کا کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ اور کسی قوم کا بڑے سے بڑا سربراہ نہ کر سکا۔ انسان کی عظمت کردار میں پوشیدہ ہے، اخلاق میں منظر ہے علم پر تحصیر ہے ، خدمت میں خفیہ ہے نا کہ عہد ہ، دولت اور عزت و شرف معیار ہے ۔ ایک سربراہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے محبت سے کام لے ، ان کو کم تر نہ سمجھے اوران کی عزت بڑھاۓ۔ حضورﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر پر تشریف لے گئے اور سفر کے دوران ساتھیوں کو بکری بھوننے کا حکم دیا۔ ایک صاحب نے کہا یا رسول اللہﷺ ! میں اس کو ذبح کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں اس کا گوشت تیار کروں گا ۔ تیسرے صاحب نے اس کو پکانے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں ۔ سربراہ امت نے ارشاد فرمایا: ” اور جنگل سے لکڑیاں میں لاؤں گا‘۔ اصحاب رسول نے عرض کیا: یا رسولﷺ ہم جو حاضر ہیں ، آپﷺ نے فرمایا ' ٹھیک ہے مگر مجھے یہ پسند نہیں کہ میں امتیاز کے ساتھ الگ بیٹھا رہوں ۔ اللہ تعالی اس بات کو پسند نہیں فرماتا ہے کہ کوئی شخص اپنے رفیقوں میں ممتاز بننے کی کوشش کرے

سر تاجدارملت کی ایک ضروری خصوصیت ان کی دل سوزی اور ہمدردی بھی ہے۔ حضورﷺ اس خلوص میں بھی بے مثال تھے۔ لوگوں کے دکھ درد کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ آپﷺ نے اللہ تعالی کے عذاب سے بچنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ لوگوں کی ضرورت کے وقت ان کے کام آنے کو بتایا ہے۔ اسی طرح مشورہ ایک سربراہ ملت کیلئے مفید ہی نہیں لازمی بھی ہے ۔ حضورﷺ نے نہ صرف مشورے کا حکم دیا بلکہ اس پر عمل بھی فرماتے تھے خصوصا اجتماعی معاملات مشورے کے بغیر بھی طے نہ فرماتے۔ حضرت علی سے یہ روایت نقل ہے کہ ”میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! آپ کے بعد کوئی ایسا معاملہ پیش آجاۓ جس کے متعلق نہ قرآن حکیم میں کچھ اترا ہواور نہ آپﷺ سے کوئی بات کی گئی ہو تم ہم کیا کریں۔ آپﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے عبادات گزار، اطاعت شعارلوگوں کو جمع کرو اور اس معاملے کو مشورے کیلئے سامنے رکھ دو اور کسی ایک شخص کی راۓ پر فیصلہ نہ کرو ۔ خود حضورﷺ کاعمل بھی یہی تھا کہ صحابہ کرام کے مشورے سے امورملت و حکومت کا فیصلہ فرماتے۔ حضورﷺ اس امر کا بھی لحاظ فرماتے تھے کہ جن لوگوں کو مسلمانوں کے معاملات اور انتظام کی باگ ڈور سونپی جاۓ وہ اپنے اخلاق اور اہلیت کے علاوہ عوام الناس کے اعتماد کے بھی اہل ہوں اور لوگ ان کو پسند کرتے ہوں دوسرے الفاظ میں عوامی مقبولیت بھی پیش نظر رکھی جائے۔

حضورﷺ کا ارشاد ہے ”تمہارے بہترین امام اور قائد وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور وہ تم کو چاہتے ہوں ۔ تم ان کو دعائیں دیتے ہو اور وہ تم کو دعا دیتے ہوں اور تم میں بد ترین رہنما وہ ہیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو اور وہ تم کو نا پسند کرتے ہیں اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو ۔ غرض مختصر یہی کہا جا سکتا ہے کہ مشاورت، عدل، دل نوازی، دل سوزی، سادگی، خدمت، ہمدردی اور ہر دلعزیزی کے وہ اصول اور پیما نے حضورﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے ہمیں عطا کئے ہیں جو سربراہان ملت و حکومت کیلئے رہتی دنیا تک سر چشمہ ہدایت رہیں گے۔