بل گیٹس کی مرغیاں۔۔۔

نیا کی معروف سافٹ ویئرکمپنی مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کا ماننا ہے کہ ’’دنیا میں ایسی کوئی سرمایہ کاری نہیں جو مرغ بانی کی طرح منافع پہنچائے، غریب کیلئے مرغی اس کا اے ٹی ایم ہے‘‘ 2016 میں دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے غربت سے نمٹنے کے لیے 'مرغیاں پالو اور غربت مٹاو' نامی ایک منصوبے کا اعلان کیا اور اس حوالے سے دنیا بھرمیں غریب افراد کو لائیو اسٹاک کا عطیہ دینے والی تنظیم ہیفر انٹرنیشنل سے اپنی فاؤنڈیشن کا اشتراک کرتے ہوئے،برکینا فاسو اور نائیجیریا سمیت مغربی افریقی ممالک کومدد فراہم کی، اس اشتراک سے متعلق بل گیٹس کا کہنا تھا کہ غریب ممالک کے باسیوں کو ان کے حالات سدھارنے کے لیے مرغیاں فراہم کی جائیں گی، ساتھ ہی انہوں نے ایک لاکھ مرغیاں عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔مرغبانی کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیئے بل گیٹس کا کہنا تھا کہ اگر میری آمدنی غربت زدہ علاقو ں میں رہنے والوں جتنی ہوتی تو میں مرغ بانی سے سماجی حیثیت میں اضافے کی کوشش کرتا۔بل گیٹس کے مطابق مرغیوں کی لاگت ترقی پذیر ممالک میں تقریبا5 ڈالرزہوتی ہے، روزانہ 2 ڈالرز خرچ کرکے ایک ماہ میں 12 مرغیاں خرید نے سے چند ماہ بعد درجنوں مرغیاں ہوجاتیں جو پیسہ کمانے کی مشین (اے ٹی ایم) ثابت ہوتیں اورغربت کی لکیر سے باہر نکال کر متوسط طبقے میں لا کھڑا کرتیں۔
گذشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے حکومت کی 100 روزہ کارکردگی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دیہاتی خواتین مرغیوں اور انڈوں کے ذریعے غربت کا خاتمہ کرسکتی ہیں تو ان کے اس بیان کو خاصا تنقید کا نشانہ بنایا گیاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا 60فیصد طبقہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھتا ہے جہاں کھیتی باڑی ،مویشی پالنا اور مرغبانی ان کا ذریعہ معاش ہے ، وزیر اعظم عمران خان نے اس 60 فیصد کواپنے پاوں پر کھڑا کرنے کی بات کی ۔ تنقید کرنے والے اس حد تک گئے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو مختلف القابات سے نوازا ،حالانکہ پولٹری کی صنعت کسی بھی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت جنوبی ایشیا کے ممالک میں دیگر ممالک کی نسبت تیزی سے فروغ پانے والی صنعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ پاکستان میں جدید پولٹری کی صنعت کا آغاز 1963ء میں ہوا ۔ پی آئی اے نے اس صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے 1965ء میں کراچی میں پہلا جدید ہیچری یونٹ لگایا۔ لیکن اب یہی صنعت ملک کے 24.7 فیصد گوشت کی طلب پوری کر رہی ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کے بعد دوسری بڑی صنعت پولٹری کی ہے جس میں اب تک 300 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری سے 28 ہزار سے زائد پولٹری فارم بن چکے ہیں جہاں گوشت اور انڈوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے مرغیاں پالی جاتی ہیں۔ 23 لاکھ افراد کا براہ راست روزگار پولٹری انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ جبکہ درجنوں نئے پراجیکٹ شروع کیے جا رہے ہیں۔پاکستان میں مرغی کا استعمال فی کس سالانہ 6 کلو جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں 41 کلو اور دیگر ممالک میں 17 کلو ہے۔ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ 1953ء میں جب پاکستان میں بکرے کا گوشت سوا روپے کلو اور دیسی مرغی کا گوشت چار روپے کلو تھا، اس زمانے میں مرغی کھانا امیروں کی شان سمجھی جاتی تھی لیکن ولایتی مرغی نے پروٹین سے بھرپور مرغی کا گوشت سستا ترین کر دیا۔
پولٹری انڈسٹری سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پولٹری انڈسٹری کا مستقبل بہت روشن ہے۔ دنیا میں اس وقت حلال مصنوعات کا سالانہ کاروبار 632 ارب ڈالر ہے جس میں سے اگر پاکستان ایک فیصد بھی حاصل کر لے تو اس کی سالانہ ایکسپورٹ چھ ارب ڈالر سے بھی زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں آسٹریلیا کی مصنوعات کی جگہ پاکستانی پولٹری زیادہ پسند کی جا رہی ہیں۔ حکومت حوصلہ افزائی کرے تو ایکسپورٹ میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن آئین میں 18ویں ترمیم سے قبل پولٹری کے لیے امپورٹ کی جانے والی مشینری سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی سے مستثنیٰ تھی جب صوبوں کو محکمے منتقل کیے گئے تو اس رعایت کا خاتمہ کر دیا گیا اور پولٹری کی مشینری پر بھی سولہ فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی جس کی وجہ سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی پولٹری انڈسٹری کو دھچکا لگا ہے۔موجودہ حکومت اگر اس طرف سوچ رہی ہے تو انہیں اس حوالے سے واضح اور جامع پالیسی دینا ہو گی اور اس پروجیکٹ پر انتہائی سخت چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے ورنہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو حکومت کے دیئے چار مرغیوں اور ایک مرغے کو گھر لانے کی بجائے بازار سے ذبح کروا کر گوشت گھر میں لانے کو ترجیح دیں گے اور پھر مرغبانی کے اس منصوبے کا حشر بھی سستی روٹی منصوبے سے مختلف نہ ہو گا ۔ ایک صحابی رسول ﷺ نے جب حالات کی خرابی کا ذکر کیا تو اسے کلہاڑا خرید کر دیا گیا تاکہ محنت سے روزی کمائے نہ کہ بھیک کا عادی بن جائے ۔