واشنگٹن طالبان کیساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر گامزن: امریکی ماہرین

(واشنگٹن) صدر ٹرمپ اپنی پہلی ٹرم کے اختتام پر افغانستان کا مسئلہ ہر صورت اور ہر قیمت پر حل کرنا چاہتے ہیں ،واشنگٹن طالبان کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر گامزن ہے ،امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کچھ حاصل کرنے کی بجائے جانی اور مالی نقصان کر رہا ہے لیکن کچھ طاقتیں امریکہ کو اس دلدل سے باہر نکلنے کی خواہشمند نہیں، سابق اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ بوچر کا کہنا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر صدر ٹرمپ نے کوئی کامیابی حاصل کی ہو جب بھی ہم نے پاکستان سے احترام کے دائرے میں رہ کر مدد کی درخواست کی پاکستان نے ہمیشہ ہماری مدد کی ،افغانستان اور پاکستان کے سابق خصوصی مشیر رچرڈ اولسن نے کہا 2018 کا سال پاکستان اور امریکہ کے لئے کافی سخت تھا، افغانستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لئے صدر ٹرمپ نے پاکستان پر دباؤ ڈالا، اٹلانٹک کونسل سے منسلک شجاع نواز نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے ایک پالیسی کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی روش اختیار کی کہ پاکستان کو دھمکیاں دیکر مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ پالیسی موجودہ دور میں زیادہ کامیاب نہیں رہی ،مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد کو جب خصوصی نمائندہ بنایا گیا تو پاکستان نے امریکہ سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، زلمے خلیل زاد نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان کے دورے میں حکام کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے عمران خان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد پاکستانی حکام نے اپنا رویہ تبدیل کیا ،پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایک ٹیبل پر بٹھانے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست پر پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا۔