دو ایٹمی قوتیں جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی: وزیر خارجہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مذاکرات ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کے حل کا واحد راستہ ہیں کیونکہ دو ایٹمی قوتیں جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

ایوان بالا میں کرتار پور راہداری پر بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کے حوالے سے سینیٹر میاں رضا ربانی کے توجہ دلاﺅ نوٹس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سیینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو وہ تفصیلی بریفنگ دے چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی ہمسایہ ممالک ہیں اور وہ یہ بات تسلیم کرتے رہے ہیں کہ 7 عشروں سے ہمارے دوطرفہ مسائل ہیں اور ان مسائل کی بنیاد پر مذاکرات بھی کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جامع مذاکرات بھی ہوئے، مذاکرات کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی اپنے ادوار میں مذاکرات کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن بھارت نے کولڈ اسٹارٹ نظریہ متعارف کرایا جو کہ حماقت تھی، اس کے علاوہ نام نہاد سرجیکل اسٹرائیکس کی بھی بات کی۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کی سیاسی ضروریات اور مصلحتوں کو ہم سمجھتے ہیں لیکن ایٹمی قوتیں حادثاتی تصادم کی متحمل بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسا تصادم خودکشی ہو گی، ایسی صورتحال میں مذاکرات کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے 26 جولائی کو قوم سے خطاب میں امن کی بات کی اور یہ ایک پیغام تھا کہ اگر اس خطے نے ترقی کرنی ہے اور عوام کو غربت اور جہالت سے نجات دلانا ہے تو ہمیں اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دینا ہو گی، اس کے لیے ہمیں اپنی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر امن درکار ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نے بھی وزیراعظم عمران خان کے نام اپنے مبارکباد کے پیغام میں اس سوچ کا اظہار کیا کہ مل بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کے بعد بھارت کی طرف سے 24 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کی بات کی گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی اور اپنے اندرونی معاملات کی وجہ سے ملاقات منسوخ کر دی کیونکہ بھارت کی پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے تھے اور 2019ءمیں اہم انتخابات بھی آ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی قیادت میں یہ رائے قائم ہوئی کہ پاکستان کے ساتھ مل بیٹھنے اور ملاقات سے انہیں سیاسی قیمت چکانا پڑے گی اس لیے ملاقات سے اجتناب کیا جائے، جس پر ہمارا جواب بڑا نپا تلا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے بھارت پاکستان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے امن کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی ہے، امن و استحکام سماجی و معاشی ترقی کے لیے ہماری ضرورت ہے۔

کرتارپور راہداری کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کرتار پور راہدری کھولنے کا مطالبہ سکھ برادری کا پرانا مطالبہ تھا، کرتار پور گوردوارہ سکھوں کا مقدس مقام ہے جہاں پر بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کو ہم نے اس سلسلے میں مراسلہ بھجوایا جسے پڑھ کر وہاں پر ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں انہوں نے قرارداد منظور کی اور ہمارے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے ہم سے ایک دن پہلے راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا اور دو وزیر وزیراعظم کی نمائندگی کے لئے راہداری کھولنے کی تقریب میں بھجوائے، کوئی بھی وزیر اس طرح کی تقاریب میں اپنی حکومت کی منظوری کے بغیر نہیں جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ 50 بھارتی صحافی بھی ان کے ساتھ آئے تھے، ہمارے اس اقدام سے ہماری اقلیتوں اور ہندوستان اور دنیا بھر میں بسنے والی سکھ برادری نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور اس اقدام کا خیر مقدم کیا، امرتسر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے ملک کے اندر انتخابات کے حوالے سے اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیات کا کہہ کر راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت سے معذرت کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی آزادی پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لیکن پاکستان پر کیچڑ اچھالنے اور دباﺅ ڈالنے کے لیے کبھی بلیک لسٹ اور گرے لسٹ میں شامل کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی اور اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم پُر امن ہمسائیگی کے خواہاں ہیں، بھارت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی طرف سے ادا کی جانے والی قیمت کا احساس ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور عوام کی صورت میں 75 ہزار سے زائد جانوں کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نذرانہ پیش کیا ہے، کافی حد تک ہم دہ