کوئٹہ کی وہ باہمت خواتین، جنہوں نے جسمانی معذوری کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا

زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں مقام کا حصول عام افراد کے لیے کامیابی گردانا جاتا ہے اور اگر جسمانی طور پر معذوری کا شکار شخص کوئی ایسی کامیابی حاصل کرلے تو یہ کسی بڑے کارنامے سے کم نہیں ہوتا۔

لیکن کوئٹہ کی باصلاحیت خاتون شازیہ نے جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہوئے بھی اس معذوری کو اپنے لیے ہرگز کمزوری یا رکاوٹ نہیں بننے دیا، بلکہ اسے زندگی میں کامیابی کے لیے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی شازیہ بتول کم سنی میں ہی جسمانی معذوری کا شکار ہوگئی تھیں۔ اسے بچپن میں بیماری کے دوران غلط علاج کہیں یا قدرتی امر، بہرحال وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئیں، لیکن انہوں نے زندگی میں کبھی ہمت نہیں ہاری، ان کا بس ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے زندگی میں مسلسل آگے بڑھنا اور کامیابیاں سمیٹنا۔

شازیہ کے مطابق، 'ہماری جسمانی معذوری اپنی جگہ مگر انگریزی اصطلاح میں ڈس ایبل (disable) کا لفظ تو ان کے لیے استعمال ہونا چاہیے، جو جسمانی طور پر تو نارمل ہوتے ہیں مگر کچھ نہیں کرتے یا بےکار رہتے ہیں۔ ہم تو differently able ہیں، جسمانی معذوری تو قدرت کی طرف سے ہے، ہمیں روزمرہ زندگی میں کام کاج کے دوران مشکل ضرور ہوتی ہے مگر اللہ نے ہمیں سوچنے کے لیے اور کچھ نہ کچھ کام کرنےکے لیے دماغ دیا ہے اور ہم حتی الوسع کام کر رہے ہیں'۔

شازیہ نے بتایا کہ ان کے والدین اور خاص طور پر ان کی والدہ نے ان کی ہمت بندھائی اور بعد میں ان کی کمیونٹی کے افراد نے بھی انہیں سپورٹ کیا۔ ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں ماسٹرز کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کبھی اللہ کی مدد سے بےساکھی کے سہارے تو کبھی وہیل چیئر پر وہ مسلسل آگے ہی بڑھتی رہیں اور اب کوئٹہ میں فائن آرٹسٹ کے طور پر ان کا نام نمایاں ہے۔

شازیہ بتول کو زندگی کے کینوس سے معاشرتی مسائل اور انسانی جذبات و احساسات کے حوالے سے اپنے تجربات اور مشاہدات کو مصوری کے کینوس پر منتقل کرنے میں خصوصی ملکہ حاصل ہے اور ان کے تخلیق کردہ فن پاروں کی کوئٹہ اور ملک کے دیگر حصوں کے علاوہ بیرون ملک بھی نمائش ہوچکی ہے۔

بطور آرٹسٹ اپنا مقام بنانے کے بعد انہوں نے جسمانی طور پر دیگر معذور افراد کی فلاح و بہود کا بھی بیڑہ اٹھایا اور وہ اب سماجی حوالے سے بھی بہت سرگرم ہیں۔ فائن آرٹس اور سماجی شعبے میں خدمات پر انہیں تمغہ امتیاز اور نیشنل یوتھ سمیت کئی ایوارڈز سے بھی نوازا جاچکا ہے۔

شازیہ کا کہنا تھا کہ معذوری کے حوالے سے انہیں مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ایسے افراد کے لیے معاشرے میں سہولیات نہیں ہیں۔ تعلیمی اداروں سے لے کر دفاتر، پارکوں اور شاپنگ مالز غرض ہر جگہ رسائی میں بہت سے مسائل درپیش آتے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود اگر آپ میں کوئی ٹیلنٹ ہے، آپ کا ارادہ مضبوط ہے اور آپ میں کچھ کرنے کی لگن ہے تو وہ ٹیلنٹ چھپ نہیں سکتا، وہ سامنے ضرور آتا ہے۔

شازیہ اگرچہ اپنے طور پر کام کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک نجی ادارے اور تعلیمی اکیڈمی سے بھی وابستہ رہی ہیں مگر تمام تر صلاحیت اور قابلیت کے باوجود تاحال وہ کسی سرکاری ملازمت سے محروم ہیں۔

جسمانی معذوری کا شکار خواتین میں ایک نمایاں نام زرغونہ ایڈووکیٹ کا بھی ہے، جنہوں نے معذوری کے باوجود اپنی جیسی دیگر خواتین کے مسائل کے حل کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے اور اس حوالے سے قائم ایک تنظیم کا بھی حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم یہ نہیں کہتے کہ جسمانی طور پر معذور افراد پر کوئی الگ سے مہربانی کی جائے اور فیور دیا جائے، ہم یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی قابلیت اور صلاحیت کے لحاظ سے مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ وہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرسکیں اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں'۔

انہی کی طرح ایک خاتون عابدہ دستکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں اور جسمانی معذوری کے باوجود ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی بھی طور اپنے خاندان پر بوجھ نہ بنیں بلکہ معاشی حوالے سے ان کا ہاتھ بٹائیں اور وہ یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب بھی ہیں۔

عابدہ وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود دستکاری کے حوالے سے ہونے والی نمائش کا حصہ بنتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی سرگرمی ہوتی ہے تو وہ نارمل انسان کی طرح ہی اس میں شرکت کرتی ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو نارمل انسان کرسکتا ہو اور وہ نہ کرسکیں۔

تاہم عابدہ اس حوالے سے شاکی ہیں کہ اکثر لوگ ان سے ہمدردی جتاتے ہیں اور ان پر ترس کھاتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا، 'آخر معاشرے میں معذور افراد سے اس طرح کے منفی رویے کیوں اختیار کیے جاتے ہیں، ان کو عجیب نظروں سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟'

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جسمانی طور پر معذور افراد کے مسائل کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدام