ستلج ٹول پلاذہ. محترم ڈی سی لودھراں٫ سیاسی و سماجی شخصیات۔ لودھراں بہاولپور کی عوام کے لیے وبال جان۔ لودھراں اور بہاولپور دونوں جڑواں شہر ہیں۔ اسلام آباد اور پنڈی کی طرح ۔۔ وہاں پر بھی گاڑیاں پل کراس کرکےشہر میں داخل ہوتی ہیں اور وہاں اب کوئ ٹول ٹیکس نہی

ستلج ٹول پلاذہ.
محترم ڈی سی لودھراں٫ سیاسی و سماجی شخصیات۔
لودھراں بہاولپور کی عوام کے لیے وبال جان۔
لودھراں اور بہاولپور دونوں جڑواں شہر ہیں۔
اسلام آباد اور پنڈی کی طرح ۔۔ وہاں پر بھی گاڑیاں پل کراس کرکےشہر میں داخل ہوتی ہیں اور وہاں اب کوئ ٹول ٹیکس نہیں۔پہلے ٹول ٹیکس تھا جو لوگوں کے اصرار پر ختم کر دیا گیا۔
این ایچ اے۔۔ رولز کے مطابق بھی اگر کوئ گاڑی اگر 60-70کلومیٹر سے زیادہ روڈ استعمال کرے گی تو اسے ٹیکس دینا لازم ہے۔۔
مگر لودہراں والے صرف 8-15 کلومیٹر روڈ استعمال کر کے ٹیکس بھرتے ہیں اور روز بھرتے ہیں۔
لیکن یہ اصول بھی ہر جگہ لاگو نہیں ہے.جیسے۔
١- بہاولپور سے حاصل پور تقریبا 200 کلو میٹر ہے۔ اور راستے میں کوئ ٹیکس پوائنٹ نہ ہے۔
٢- پاکپتن براستہ کہروڑپکا۔میلسی۔وہاڑی۔عافوالا۔بورےوالا۔تقریبا 180 کلومیٹر ہے۔ اور کوئ ٹول ٹیکس نہیں۔
احمد پور اور بستی ملوک کے مقامی لوگ ٹیکس ادایگی سے مستثنیٰ ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ٹیچنگ سٹاف٫ ڈاکٹرز٫ وکلاء٫ سکول والی گاڑیاں٫ وکٹوریہ اور میڈکل کالونی کے مریض٫ سیروتفریح والے سب ملا کر اگر صرف 300 گاڑیاں بھی بہاولپور سے لودھراں آتی جاتی ہوں تو وہ گذشتہ 30 سالوں میں تقریبا 70لاکھ کا ٹول پلازہ ادا کر چکے ہیں۔
حقیقی اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
وکلاء نے تحریک چلا کر اپنا ٹول ٹیکس معاف کرایا ہوا ہے۔ اگر ایک عوامی طبقہ کو یہ سہولت حاصل ہے تو باقی کو کیوں نہیں۔۔؟؟؟
ارباب اختیار سے کزارش ہے کہ لودہراں کے لیے عوام دوست اقدام کر کے اس عذاب سے جان چھڑائ جاۓ