اسرائیل نا منظور کیوں ؟ پڑھیئے

(تحریر: صابر ابو مریم)
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے قیام پاکستان سے قبل عین اس وقت کہ جب دوسری طرف سرزمین فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کو قیام بخشنے کی برطانوی سازش تکمیل کو پہنچ رہی تھی ، دو ٹوک اور واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ ، برصغیر کے مسلمان ہر گز یہ قبول نہیں کریں گے کہ فلسطین اور اس کے عوام کے ساتھ برطانوی سامراج اتنی بڑی خیانت کرے کہ جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہاں ارض مقدس فلسطین پر ایک جعلی ریاست اسرائیل کو وجود بخشناچاہتا ہے ہم کسی طور قبول نہیں کریں گے اور برصغیر کے مسلمان خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ احتجاج کریں گے اور ہر ممکنہ اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔یہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے وہ نظریات و افکار ہیں کہ جن کا ذکر انہوں نے نے مفتی اعظم فلسطین کے نام لکھے گئے اپنے خط میں بھی کیا اور برطانوی سامراج کو متنبہ کرتے ہوئے لکھے گئے خطوط میں بھی بارہا کیا۔یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں قائد اعظم کے نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اصول طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام دنیا بھر کے مظلوموں کا ساتھ دیں گے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ قائد اعظم نے فلسطین پر ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کو تسلیم نہیں کیا تھااور تا حال پاکستان دنیا کے ان چیدہ چیدہ ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جن کا اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں یہاں تک کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح تحریر کیا گیا ہے کہ یہ پاسپورٹ دنیا بھر میں کارآمد ہے جبکہ اسرائیل کے لئے نہیں۔

حالیہ دنوں جب امریکہ نے ایک طرف فلسطین کا سودا کرنے کے لئے عرب ممالک پر دباؤ بڑھا دیا ہے وہاں ساتھ ساتھ اسرائیل نے بھی چالاکی سے عرب دنیا کے ممالک بالخصوص عرب بادشاہتوں کی نئی نسل کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم رک لیں اور علی الاعلان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لیں تا کہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبر میں دفن کر دیا جائے اور آئندہ آنے والی نسلوں کو فلسطین نام تلک یاد نہ رہے۔

امریکی سامراج اور اسرائیل کی اس مشترکہ مہم کا نتیجہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ پاکستان کو بھی اس سازش میں لپیٹنے کی تیار مکمل کر لی گئی ہے ۔گذشتہ دنوں ہی کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار جنرل(ر) امجد شعیب کی ایک ویڈیو کلپ منظر عام پر آئی ہے کہ جس میں انہوں نے فلسطین کے مسئلہ کو صرف علمائے کرام تک محدود بتاتے ہوئے تضحیک آمیز لہجہ میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مسئلہ فلسطین علمائے دین کا کوئی ذاتی نوعیت کا مسئلہ ہے ۔ اسی طرح انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ انہوں نے زمبابوے میں تعینات اسرائیلی سفیر سے ملاقات کی، وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کیا حرج ہے ؟ جبکہ اسرائیل پاکستان کی مدد کر سکتا ہے اور ٹیکنالوجی وغیرہ بھی دے سکتا ہے، اسی طرح موصوف نے یہ تاثر دیا کہ شاید مسئلہ فلسطین کی حمایت کرنے والے افراد کی یہودیوں سے دشمنی ہے اور وہ یہودی دشمنی میں اسرائیل کے مخالف ہیں؟ اپنی گفتگو کے نکات میں کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لے تو مسئلہ فلسطین حل کروانے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔انہوں نے ان عرب ممالک کی مثال بھی دی کہ عرب ممالک نے تعلقات قائم کر لئے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں؟

آئیے اب جنرل (ر) امجد شعیب صاحب کی خدمت میں انتہائی مودبانہ انداز میں تمام باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔پہلی بات جو انہوں نے کہ کہ مسئلہ فلسطین دینی یا علمائے دین کا مسئلہ ہے تو یہ درا صل انہوں نے نہ صرف قائد اعظم کے افکار کی دھجیاں اڑائیں بلکہ پاکستا ن کے عوام کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ ایک سو ایک برس سے فلسطین کا دفاع کرنے والے فلسطینی شہداء کے لہو کی بھی توہین کی ہے۔در اصل فلسطین کا مسئلہ مذہب و لسان سے بالاتر ہے جبکہ ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے یہاں شاید موصوف امجد شعیب صاحب یہ بتانا بھول گئے کہ فلسطینی عرب مسلمان، عیسائی اور یہودی شامل ہیں جو فلسطین کے دفاع کی ایک طویک لڑائی اور جد وجہد انسانی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔

مزید اس لنک سے پڑھئے:
https://www.socioon.com/social/post/48282448/6