عظمت ثانی نقیب ثانی

صوفی کس طرح حال بدلتا ہے؟

صوفی کا شعار اور روش کیا ہے جس سے پتہ چلے کہ صوفی کون ہے؟ صوفیاء کے امام ابو عبد الرحمن السلمی رحمۃ اللہ علیہ (امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ، حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا شیخ) اپنی کتاب الفتوۃ میں صوفیاء کی روشِ زندگی اور لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں:
-
ابوبکر الحلبی نے روایت کیا کہ ہم حضرت شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے تھے کہ اچانک وہاں سے کچھ نوجوان گزرے جو گانا بجانا کر رہے تھے، شراب پی رہے تھے، ناچ کود کر رہے تھے۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں کو غصہ آگیا اور کہنے لگے کہ ’’حضرت! ہاتھ اٹھا کر ان ظالموں کے لیے بددعا کیجئے۔ یہ نوجوان آپ کے سامنے شراب پی رہے ہیں اور ناچ گانا کر رہے ہیں۔ انہیں ادب اور حیا نہیں۔ ان کے لیے بد دعا کیجئے‘‘۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی:
-
إلٰهی وسيدی! أسئلک أن تفرحهم فی الآخرة کما فرحتهم فی الدنيا.
-
’’اے میرے مالک! ان کو آخرت میں بھی اسی طرح خوش رکھنا جس طرح دنیا میں خوش رکھا ہوا ہے‘‘۔
-
(السلمی، کتاب الفتوة: 60)
-
مریدوں نے جب یہ کلمات سنے تو ان کے دل بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا: حضور ہم نے بددعا کے لیے درخواست کی تھی کہ ان کا خاتمہ ہو جائے اور وہ برباد ہو جائیں لیکن آپ نے دعا دے دی۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ مسکرا پڑے اور فرمایا:
آخرت میں یہ اُسی صورت خوش ہوں گے جب دنیا میں اپنے ان احوال سے توبہ کرلیں گے اور اس کی جانب رجوع کریں گے۔ پس اگر اُس نے انہیں آخرت میں خوش رکھنے کا فیصلہ کر لیا تو انہیں دنیا میں توبہ کی توفیق دے گا اور ان کی توبہ ہو جائے گی۔
-
گویا صوفی ہر ایک کی توبہ، بخشش اور مغفرت کی فکر کرتا ہے۔ صوفی فنا کرنے کی بات نہیں کرتا بلکہ صوفی بقا دینے کی بات کرتا ہے۔
-
صوفی کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟
علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ سلوۃ الاحزان میں بیان کرتے ہیں کہ صوفیاء کے امام اور امام اعظم کے ساتھی اور معاصر حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ دریائے دجلہ پر غسل کے لیے گئے۔ جمعہ کا دن تھا۔ کپڑے اتار کر رکھے اور غسل لینے لگے۔ اچانک ایک چور آیا اور آپ کے کپڑے لے اڑا۔ جب غسل کے بعد آپ نکلے تو کپڑے غائب تھے۔ پریشان بیٹھے ہی تھے کہ چور کپڑے لے کر واپس آگیا۔ اُس نے آپ کو کپڑے دیے اور کہا کہ میرا دایاں ہاتھ جس سے کپڑے چرائے تھے وہ فالج زدہ ہو گیا ہے۔ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: میرے مولیٰ! جس طرح تو نے میرے کپڑے واپس فرما دیے ہیں اس طرح اس چور کے ہاتھ کی صحت بھی واپس کر دے۔ آپ کی دعا سے اس کا ہاتھ صحت مند ہوگیا۔
پس صوفی چوری کو نہیں دیکھتے بلکہ اُس کی پریشانی کو دیکھتے ہیں۔ یہ وہ انداز ہے جس انداز کے ذریعے صوفیاء مخلوقِ خدا کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔ ان کا بولنا، کرنا اور ہر معاملہ دوسرے لوگوں سے جدا ہوتا ہے۔
-
صوفیاء کا منفرد فہم و ادراک:
-
صوفیاء کا نہ صرف قال، حال اور عمل منفرد ہوتا ہے بلکہ ان کا فہم و اِدراک بھی جدا ہوتا ہے۔ وہ حقائق و واقعات سے الگ معانی اخذ کرتے ہیں۔ ایسے معانی اخذ کرتے ہیں جو دوسرے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔ صفائے قلب اور تطہیرِ باطن کے بعد اُن کے اَذہان و اَفہام، قلوب و اَفکار اور توجہات بدل جاتی ہیں۔ وہ ہر شے میں ذاتِ حق کو دیکھتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ سے جڑے رہتے ہیں، اُن کی توجہ رب کی طرف مرکوز رہتی ہے۔ وہ صرف رب کو تلاش کرتے ہیں اور ہر شے میں اُسی رب کو پاتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ ہمیشہ امن اور شانتی میں رہتے ہیں۔
-
یہ بات توجہ طلب ہے کہ غیر کا دھیان چونکہ دل میں غبار اور آلودگی لاتا ہے، لہذا وہ اس غبار کو ختم کرتے ہیں۔ اگر مولیٰ کا دھیان رہے اور غیر کا غبار نہ رہے تو اُس سے دل کو سکون اور قرار آتا ہے۔ سکون و قرار سے بندے میں سدھار آتا ہے۔ سدھار سے آسودگی آتی ہے۔ آسودگی ملے تو دل میں رب کا پیار آتا ہے۔ طبیعت میں آہنکار (تکبر و انانیت) نہیں رہتا بلکہ پیار اور اِنکسار آتا ہے۔ پھر شانتی آتی ہے۔ انسان کا وہار (behaviour) بدل جاتا ہے۔ بندے کا کردار بدل جاتا ہے اور اگر خدا سے تعلق اور پیار نہ ہو، دل خدا سے نہ جڑے تو پھر وِیوہار (سلوک، اَخلاق) اَہنکار (غرور اور تکبر) کے ذریعے بدل کر دُر وِیوہار (بد سلوک، بد اَخلاق) ہو جاتا ہے۔ اَہنکار (غرور اور تکبر) بندے کو دُر وِیوہار (بد سلوکی، بد اَخلاقی) دے دیتا ہے۔ تصوف آجائے تو بندہ نیک وِیوہار (حسنِ سلوک، خوش اَخلاقی) کا مالک ہوتا ہے۔ اگر تصوف نکل جائے تو بندہ دُر وِیوہار (بد سلوکی، بد اَخلاقی) کا مالک ہوتا ہے۔ یہ صوفی واد کا طریقہ ہے۔ صوفی واد پہ چلو گے تو پھر آتنک واد (دہشت گردی) ختم ہوگی۔ صوفی ازم اور روحانیت پر عمل پیرا ہونے سے ہی رویے بدلیں گے۔
-
صوفیاء