عظمت ثانی نقیب ثانی

مُرشد
نفس کی غذا کو نار کے بجائے نور میں تبدیل کر دینے والے کو مرشد کہتے ہیں ۔ مرشد کوئی نئی مُحبت عطا نہیں کرتا بلکہ آپکی ہی محبت والی روح کو دُرست راستہ یعنی اللہ دکھاتا ہے ، الصراط المستقيم ۔ کوئی عمل نہیں ہے بلکہ اُسکا راستہ ہے جس پر انعام ہوا ۔ مخلوق میں تلاش کریں کہ انعام کس کس پر ہوا ہے ۔ ؟ انہی پر جن کی ارواح زندگی اور نور سے بھری ہوتی ہیں ، ذات باری تعالی سے تعلق والی ہیں ۔

تصوف صفائی کے علم کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں تصوف کے لفظ کا ذکر نہیں لیکن تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب ہے یہی علم حاصل کرنے والے کو تصوف کا طالب علم اور اسی طالب کو صوفی کہتے ہیں جو کہ کسی رشد و ہدایت دینے والے کے بغیر ہرگز ممکن نہیں ۔

صوفی بنے گا تو روحانیت یعنی باطن کا علم شروع ہو گا ۔ کیونکہ روحوں میں غلاضت نہیں ہوتی تو صفائی کیسی ؟ صفائی تو نفس و دل کی کرنی ہے اسے ہی شریعت بھی کہتے ہیں ۔ ارواح کو بیدار کرنا ہوتا ہے اسے ہی روحانیت کہتے ہیں, باطن روح کی بیداری اور دل کی صفائی نہیں بلکہ دل کی زندگی کا علم ہے تاکہ صالح اور مقرب ہو ۔ مقرب یعنی قریب ترین ، اگر اسی ذندگی میں دیدار الہی پر یقین نہیں ہے تو پھر آپ اپنی گزرتی عمر میں ذات کے قرب والے کیسے ہوں گے ؟ ۔۔ بغیر ذات کے دیدار کے ذات کا قرب سمجھ سے باہر ہو گا ۔

جتنا زیادہ روح میں نور ہو اتنا ہی قلب اور جسم میں ایمان ہوتا ہے ، ایمان صرف یقین ہی کا نام نہیں ۔ یوم ازل سے پہلے جلوہ الہی ، قرب الہی اور محبت الہی والی ارواح بنائی گئی پھر یوم ازل کو " کُن " فرما کر جنتی اور دوزخی ارواح بنائیں گئی تھیں ۔

مرشد مُحبت والی روح کو روحانیت سکھاتا ہے کیونکہ اسکے اندر جو ذاتی نور ہوتا ہے وہ روح اسکے ادب کو قبول کرنےوالی ہوتی ہے ، روحانیت کی تعلیم یعنی وہ عمل جو روحیں کریں ، روحیں ہوش میں ہوں گی تو پھر ہی آپ روح کے تعلق والے ہوں گے ، اللہ والے یعنی ( جلوہ ، قرب اور مُحبت والے ) جوکہ یوم ازل اور کُن فرمانے سے پہلے کے ہیں ، اسی لیئے یہ اللہ والے بس اللہ ہی سے تعلق کی بات کرتے ہیں جنت کی جستجو یا دوزخ کے خوف کی نہیں ۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو قرآن کریم قیامت کے خوف اور جنت کی امید سے بھرا ہے لیکن اللہ والے اللہ سے محبت اور قرب و دیدار کی بات کرتے ہیں اسکا مطلب ہے اللہ والے اس نور کی بات بھی کرتے ہیں جو کہ اللہ کی ذات کا ہے صرف صفات ہی کا نہیں کیونکہ قرآن ذات کی طرف سے قانون شریعت اور صفت رب العالمین ہے مخلوق کے لیئے یعنی قرآن ذات تک رسائی کا زریعہ ہے ، اس لیئے ہمیں ذات کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے دراصل جس کو پہچاننا اور اس سے تعلق بنانا ہے ۔

اللہ کو انسان کوشش سے نہیں پا سکتا بلکہ وہ اپنی مرضی سے ملتا ہے ، اس لیئے ہمیشہ وہ نور اپنے اندر ذکر اور تصور سے اکٹھا کریں جو ذاتی ہو اسکے اسم ذاتی " اللہ " کا کیونکہ اسکی ذات اپنے ہی اس نور سے منسلک ہے جو آپکے اندر ہو گا۔

مخلوق میں سے جس کی روح میں اسم ذات بس جاتا ہے وہی روح الفقر تلاش کرتا رہتا ہے تاکہ اسکو اللہ کا ولی بنا دے , کیونکہ کُن فیکون سے بنی روح میں اسم ذات نہیں بستا بلکہ وہ صفت سے جڑی رہتی ہے ۔ اسم ذات اسی روح میں رہتا ہے جو جلوہ ، قرب ، یا ، محبت والی ہو دوسری روح ہمیشہ تنقید اپنے اندر رکھے گی اور وہ کچھ گمان کرے گی جو اسےحاصل ہونا ہے ، یہی نظام قدرت ہے اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہل سکتا ہر کام اسکے اپنے نظام سے ہو گا ۔

اللہ کریم ہم سب کو امام الانبیاء محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا ظرف اور ہنر عطا فرمائے اللہم آمین یا رب العالمین.