عظمت ثانی نقیب ثانی

پیر و مرشد کی تلاش
پیر کے لفظی معنی بوڑھے شخص کے ہیں, عرف عام میں یہ لفظ مرشد کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.
مرشد کے لفظی معنی راستہ دکھانے والے کے ہیں. اصطلاح میں پیر و مرشد کے معنی ایسے استاد کے ہیں جو مرید کو شریعت کی پابندی کے ساتھ طریقت (روحانیت) پر بیعت کرے اور اس کی درجہ بہ درجہ تربیت کر کے, تزکیہ نفس اور ریاضت سے اس کو پاک اور بلند کرتے کرتے اللہ اور اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دے.
پیر و مرشد کہلانے کا حق دار ہے ہی وہی جو اپنے مریدین کو اللہ اور اس کے رسول تک پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہو.
علماء و صوفیاء نے مرشد کی تلاش کے لیے کچھ نشانیاں اور اصول بناۓ ہیں, ان میں سے چند پیش خدمت ہیں.

1. پیر کو شریعت کا پابند ہونا چاہیے.
2. سنت کے مطابق باریش (داڑھی والا) ہونا چاہیے.
3. تارک سنت (سنت رسول کو ترک کرنے والا) نہ ہو.
4. دین کی اتنی سمجھ اور علم رکھتا ہو کہ بوقت ضرورت کوئ دین کا مسلہ کتاب سے دیکھ کر نکال سکتا ہو. (مرشد کا فقیہ ہونا شرط نہیں ہے).
5. دین کے کسی رکن کا انکار کرنے والا نہ ہو.
6. پیر کبھی فربا پیٹ (موٹا) نہیں ہو سکتا.
7.مرشد وہ ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آ جاۓ.
8. پیر روحانی علم سے آراستہ ہو.
9. روحانی علم (سینہ بہ سینہ) منتقل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو.
10. اپنے مرید پر غائبانہ نظر رکھ سکتا ہو اور غائبانہ تربیت بھی کر سکتا ہو.
11. مریدین کو شیطان کی چالوں اور وار سے محفوظ رکھ سکتا ہو.
12. جس کی اللہ اور اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار تک رسائ ہو, اور اپنے مریدین کو وہاں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو.
13. آپ کا مرشد وہ ہے جس کو دیکھ کر یا جس کا نام اور ذکر سن کر آپ کو ایک عجیب سی کشش محسوس ہو.

نوٹ !

1. اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم کہاں سے اور کیسے ایسا مرشد تلاش کریں, آجکل تو ہر جگہ دو نمبر لوگ ہیں ?
تو جواب یہ ہے کہ جب خدا نخواستہ ہمارا کوئ پیارا بیمار ہو جاۓ تو اس کے علاج کے لیے تو ہم پورے شہر اور ملک کے ڈاکٹرز پر ریسرچ کر لیتے ہیں اور ہمیں زبانی یاد ہوتا ہے ک فلاں شہر کا فلاں ڈاکٹر بہت قابل ہے, اسی طرح ہمیں یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ فلاں فلاں میڈیکل سٹور پر ایک نمبر دوا ملتی ہے.. وغیرہ وغیرہ تو مرشد کی تلاش میں ہم کیوں صرف چند لوگوں کو دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ آجکل تو کوئ ٹھیک بندہ ہے ہی نہیں ?
ہم اگر محنت اور تلاش کریں تو ہمیں بہت سے قابل بندے مل جائیں گے. یہ اللہ کی طرف سفر کا راستہ ہے, اس میں اللہ نے تلاش کی محنت رکھی ہے جو ہم کریں گے تو اپنے مرشد تک پہنچیں گے.
2. کچھ لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ہم ایسے ہی کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں ہوں گے, پہلے اسے پرکھیں گے پھر بیعت ہوں گے...
یہ خیال غلط ہے, آپ اپنے سے کسی بڑے کو کیسے پرکھ سکتے ہیں, وہ بھی مرشد کو. اگر آپ کسی کو پرکھ سکتے ہیں تو آپ اس کے مرشد ہیں وہ آپ کا نہیں.
3. تو پھر کیسے پتا چلے کہ ہمیں کس کے ہاتھ پر بیعت ہونا چاہیے?
جواب. جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ آپ نے تلاش کی محنت کرنی ہے, معلومات لے کر ایک لسٹ بنا لیں, پھر لسٹ والے ان سب پیر حضرات کی محفل میں جا کر دیکھیں, ان کی تعلیمات کیا ہیں, طریقہ بیعت اور شرائط کیا ہیں, مریدین کو کیا سبق دیتے ہیں, ان کے مریدین ان کے بارے میں کیا بتاتے ہیں, وہ دیکھنے میں کیسے ہیں, کیا ان کو دیکھ کر آپ کو کشش محسوس ہوتی ہے.. وغیرہ وغیرہ. یہ سب باتیں دیکھ اور سمجھ کر اپنی سہولت اور طریقے کی پسند کے بعد جہاں کشش محسوس ہو وہاں جائیے اور بیعت ہو جائیے.
4. کوشش کریں کہ کسی ایسی ہستی کے ہاتھ پر بیعت ہوں جن سے ملنا جلنا آسان ہو, ملاقات کا وقت مل جاتا ہو, فون پر بات ہو سکتی ہو, جن سے آپ اپنے اسباق اور سوالات کے متعلق گفتگو کر سکتے ہوں.
5. آخری اور اہم بات یہ کہ تصوف کی اصل اثاث مراقبہ ہے, مراقبہ سے ہی روحانی پرواز اور منزل کی طرف سفر ہوتا ہے. کسی ایسے پیر کے ہاتھ پر بیعت ہوں جو صاحب مراقبہ ہوں اور مراقبہ سکھاتے بھی ہوں اپنے مریدین کو.
6. حصول علم کے لیے اپنے پہلے مرشد کے پردہ فرمانے کے بعد یا زندگی میں بھی آپ دوسری دفعہ کسی اور بزرگ کے ہاتھ پر بیعت ہو سکتے ہیں.
7.سب سے آخری بات کہ رزق کی طرح مرشد بھی لکھے ہوتے ہیں کہ کس کا مرشد کون ہے, مرید وہیں سے جا کر اپنے حصہ اور فیض وصول کرتا ہے.